وقت اتنا کہاں ہے دوا کے لئے
تو ہی کافی ہے بس مبتلا کیلئے
ہے سفر بھی طویل اور مدت بھی کم
کر لے زاد سفر راستہ کے لئے
سیکڑوں جاں نچھاور کروں میں اگر
یہ بھی کم ہے ماں تری مامتا کے لئے
دل تو پہلے ہی ہم ہار بیٹھے ہیں اب
اور کیا کچھ کریں اس اپسرا کے لئے
خوان نعمت سے سیراب تو جب بھی ہو
کچھ نہ کچھ چھوڑ دے اقربا کے لئے
ہم سے رند اور کہاں حوران بہشت
سنتے ہیں کہ وہ ہیں پارسا کے لئے
فضل رندوں کو بخشے گا محشر کے دن
عدل مشکل ہے عابد بے ریا کیلئے
باوفا بےوفا، دھیان دے ہوش کر
ایک دن ہے ابھی فیصلہ کے لئے
دیکھ فیضیؔ ہے ہم سا کوئی باوفا
مر کے پھر جی اٹھے ہیں لِقا کے لئے
از قلم, فراز فیضیؔ
Contact: ٩٣٢٦١٨٧٥١٦
shamsulliqafarazfaizi@gmail.com
fiza Tanvi
30-Mar-2022 06:52 AM
Bahut khoob
Reply